کشمیر پر دیا گئے انا ہزارے کا بیان ذہنی دیوالیہ پن اور دانشورانہ بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔
کورپشن کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرنے والے جان لیں کہ اسی کورپشن اور فوجی طاقت کے بل پر بھارت سرزمین جموں کشمیر پر ناجائز تسلط بنائے ہوئے ہے۔ محمد یاسین مل
15/اکتوبر /سرینگر / جموں کشمیر کسی کا اَٹوٹ اَنگ نہیں ہے۔ کشمیر پر دیا گئے انا ہزارے کا بیان ذہنی دیوالیہ پن اور دانشورانہ بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔ان باتوں کااظہا ر جموں کشمیرلبریشن فرنٹ کے چیئرمین جناب محمد یاسین ملک نے آج جاری کئے گئے اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔ یاسین صاحب نے کہا کہ اپنے آپ کو گاندھی جی کا عکس گرداننے والے لوگ آج گاندھی کے بجائے نتھو رام گوڈسے بن کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ۔یاسین صاحب نے کہا کہ ۸۹۹۱ ءمیں انا ہزارے خود سرینگر آئے تھے اورمیرے گھر پر بھی آئے ۔ یہاں آکر انہوں نے کشمیر کے اندر بھارتی ظلم و جبر،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے سیاسی حق کی بازیابی کی باتیں کی تھیں۔لیکن آج جموں کشمیر پر انکے دئے گئے بیان نے سب کو حیرت ذدہ کیا ہے۔ یاسین صاحب نے کہا کہ انا ہزارے دراصل گاندھی کی کھادی کے نیچے ابھی تک آر ایس ایس کی نکر(NIKAR) پہنے ہوئے ہیں۔وہ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو گاندھی جی کے عکس کے طور پر پیش کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انکے حالیہ بیانات نے ثابت کردیاہے کہ وہ اصل میں گاندھی جی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کے بھگت ہیں۔ یاسین صاحب نے کہا جس کورپشن کو ختم کرنے کےلئے انا ہزارے اور انکی ٹیم برسر جدوجہد ہونے کا دعویٰ پیش کررہی ہے،اسی کورپشن اور فوجی طاقت کے بل پر بھارت سرزمین جموں کشمیر پر ناجائز تسلط بنائے ہوئے ہے۔ انا ہزارے کو یہ بات معلوم ہے اور انہوں نے اس کا کئی بار اظہار بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اٹوٹ اَنگ کا راگ الاپ کر وہ اپنے دوہرے معیار اور رویے کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔یاسین صاحب نے سوامی اگنویش کے حالیہ بیان جس میں انہوں نے آزاد کشمیر کو آزاد کرنے کی باتیں کی تھیں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حضرت پچھلے تین سال سے لگاتار ہرسال کشمیر آکر کشمیریوں کے حقوق اور یہاں ہونے والی بھارتی ذیادتیوں پر اشک شوئی کرتے پھر رہے تھے۔ پچھلے سال انہوں نے یہاں آکر ہمارے ایک بھوک ہڑتال میں بھی شرکت کی جس کا مقصد بھارتی افواج و فورسز کی جانب سے یہاںہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ لیکن موصوف کے اندرون کابغض اور جھوٹ بھی باہر نکل آیا ہے اور وہ بھی جموں کشمیر کے لوگوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اپنے جھوٹ اور فریبی کاری کی سیاست سے موصوف نے اُس روحانی مرکز اور فکر کو بھی داغدار بنایا ہے جس کے ساتھ منسلک ہونے کے وہ مدعی ہیں۔ یاسین صاحب نے کہا کہ انا ہزارے،سوامی اگنویش اور انکی قبیل کے دوسرے تمام لوگوں پر ہم یہ بات واضح کردیا چاہتے ہیں کہ انکے یہ بیانات کسی بھی طرح سے جموں کشمیر کی متنازعة حیثیت کو ختم نہیں کرسکتے ہیں۔ جموں کشمیر ایک متنازعہ سر زمین ہے اور اپنے سیاسی حق آزادی کےلئے جدوجہد کرنا جموں کشمیر کے لوگوں کا جمہوری اور بنیادی حق ہے۔ پھر یہ بات بھی ان حضرات کو ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ۶۶ سال تک مسلسل انکے ملک کے افواج کاجبر، کورپشن،اور دوسرے استعماری حربے جب ہماری پرامن جدوجہد کا کچھ نہیں بگاڑ پائے ہیں تو انکے دوغلہ پن پر مبنی یہ بیانات کیسے اور کیونکر ایسا کرسکے گا۔یاسین صاحب نے کہا کہ اپنے آپ کو ”امن و آشتی “ کا چمپئن گرداننے والے ان لوگوں سے ہم سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا امن جبر ،ظلم اور ناجائز قبضے کی وکالت کرنے سے قائم ہوسکتا ہے۔ ہم انہیں بتادیناچاہتے ہیں کہ امن مسائل کو حل کرنے سے قائم ہوتا ہے ۔اور اگر برصغیر ہندوپاک میں امن و استحکام قائم کرنا ہے تو اس کےلئے مسئلہ جموں کشمیر کو اس سرزمین کے مالک جموں کشمیر کے لوگوں کی خواہشات اور مرضی کے مطابق حل کرنا ہوگا۔
کورپشن کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرنے والے جان لیں کہ اسی کورپشن اور فوجی طاقت کے بل پر بھارت سرزمین جموں کشمیر پر ناجائز تسلط بنائے ہوئے ہے۔ محمد یاسین مل
15/اکتوبر /سرینگر / جموں کشمیر کسی کا اَٹوٹ اَنگ نہیں ہے۔ کشمیر پر دیا گئے انا ہزارے کا بیان ذہنی دیوالیہ پن اور دانشورانہ بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔ان باتوں کااظہا ر جموں کشمیرلبریشن فرنٹ کے چیئرمین جناب محمد یاسین ملک نے آج جاری کئے گئے اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔ یاسین صاحب نے کہا کہ اپنے آپ کو گاندھی جی کا عکس گرداننے والے لوگ آج گاندھی کے بجائے نتھو رام گوڈسے بن کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ۔یاسین صاحب نے کہا کہ ۸۹۹۱ ءمیں انا ہزارے خود سرینگر آئے تھے اورمیرے گھر پر بھی آئے ۔ یہاں آکر انہوں نے کشمیر کے اندر بھارتی ظلم و جبر،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے سیاسی حق کی بازیابی کی باتیں کی تھیں۔لیکن آج جموں کشمیر پر انکے دئے گئے بیان نے سب کو حیرت ذدہ کیا ہے۔ یاسین صاحب نے کہا کہ انا ہزارے دراصل گاندھی کی کھادی کے نیچے ابھی تک آر ایس ایس کی نکر(NIKAR) پہنے ہوئے ہیں۔وہ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو گاندھی جی کے عکس کے طور پر پیش کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انکے حالیہ بیانات نے ثابت کردیاہے کہ وہ اصل میں گاندھی جی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کے بھگت ہیں۔ یاسین صاحب نے کہا جس کورپشن کو ختم کرنے کےلئے انا ہزارے اور انکی ٹیم برسر جدوجہد ہونے کا دعویٰ پیش کررہی ہے،اسی کورپشن اور فوجی طاقت کے بل پر بھارت سرزمین جموں کشمیر پر ناجائز تسلط بنائے ہوئے ہے۔ انا ہزارے کو یہ بات معلوم ہے اور انہوں نے اس کا کئی بار اظہار بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اٹوٹ اَنگ کا راگ الاپ کر وہ اپنے دوہرے معیار اور رویے کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔یاسین صاحب نے سوامی اگنویش کے حالیہ بیان جس میں انہوں نے آزاد کشمیر کو آزاد کرنے کی باتیں کی تھیں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حضرت پچھلے تین سال سے لگاتار ہرسال کشمیر آکر کشمیریوں کے حقوق اور یہاں ہونے والی بھارتی ذیادتیوں پر اشک شوئی کرتے پھر رہے تھے۔ پچھلے سال انہوں نے یہاں آکر ہمارے ایک بھوک ہڑتال میں بھی شرکت کی جس کا مقصد بھارتی افواج و فورسز کی جانب سے یہاںہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ لیکن موصوف کے اندرون کابغض اور جھوٹ بھی باہر نکل آیا ہے اور وہ بھی جموں کشمیر کے لوگوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اپنے جھوٹ اور فریبی کاری کی سیاست سے موصوف نے اُس روحانی مرکز اور فکر کو بھی داغدار بنایا ہے جس کے ساتھ منسلک ہونے کے وہ مدعی ہیں۔ یاسین صاحب نے کہا کہ انا ہزارے،سوامی اگنویش اور انکی قبیل کے دوسرے تمام لوگوں پر ہم یہ بات واضح کردیا چاہتے ہیں کہ انکے یہ بیانات کسی بھی طرح سے جموں کشمیر کی متنازعة حیثیت کو ختم نہیں کرسکتے ہیں۔ جموں کشمیر ایک متنازعہ سر زمین ہے اور اپنے سیاسی حق آزادی کےلئے جدوجہد کرنا جموں کشمیر کے لوگوں کا جمہوری اور بنیادی حق ہے۔ پھر یہ بات بھی ان حضرات کو ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ۶۶ سال تک مسلسل انکے ملک کے افواج کاجبر، کورپشن،اور دوسرے استعماری حربے جب ہماری پرامن جدوجہد کا کچھ نہیں بگاڑ پائے ہیں تو انکے دوغلہ پن پر مبنی یہ بیانات کیسے اور کیونکر ایسا کرسکے گا۔یاسین صاحب نے کہا کہ اپنے آپ کو ”امن و آشتی “ کا چمپئن گرداننے والے ان لوگوں سے ہم سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا امن جبر ،ظلم اور ناجائز قبضے کی وکالت کرنے سے قائم ہوسکتا ہے۔ ہم انہیں بتادیناچاہتے ہیں کہ امن مسائل کو حل کرنے سے قائم ہوتا ہے ۔اور اگر برصغیر ہندوپاک میں امن و استحکام قائم کرنا ہے تو اس کےلئے مسئلہ جموں کشمیر کو اس سرزمین کے مالک جموں کشمیر کے لوگوں کی خواہشات اور مرضی کے مطابق حل کرنا ہوگا۔
Comments
Post a Comment